لے پالک

 👥 لے پالک 👥

 ( مکمل کہانی  )

ازقلم : نین شاہ


شادی بڑی دھوم دھام سے ہورہی تھی۔


مہندی کی رسم بہت خوابناک تھی۔ ہال میں لڑکا اور لڑکی دونوں موجود تھے۔ ان کا نکاح تو ابھی نہیں ہوا تھا ۔ اسی لئے ان کی رسم علیحدہ علیحدہ ہی رکھی گئ تھی تاکہ 

کسی کو اعتراض نہ رہے۔ 


فجر کی رخصتی کا دن بھی آ پہنچا۔ اس کے خواب سچ ہورہے تھے۔ وہ خود بھی خوبصورت تھی اور اس کا دولہا بھی لاکھوں میں ایک تھا۔ 


فجر کے خیر خواہ اس کے اچھے نصیب کے لئے دعاگو تھے۔ 


حقیقت ہے اور بہت تلخ حقیقت ہے کہ کبھی کبھی خوشی کا موقع بھی کچھ لوگوں کے لئے غم کا طوفان چھپائے ہوتا ہے۔ اور کبھی تو دنیا سے جانے والے پر بھی لوگ کلمہ شکر ادا کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں!


فجر اور اس کے والدین بہت خوش تھے لیکن فجر کی ایک آنٹی غصے سے کھول رہی تھی ۔ بظاہر وہ بھی بہت بن ٹھن کر تقریب سے جڑی نظر آرہی تھی۔ 


اس کا منصوبہ مکمل تھا۔ اس کے بیٹے کا رشتہ  ٹھکرایا گیا تھا اور وہ اسے تقدیر کا لکھا ماننے کی بجائے شیطانی راستے پر اتر آئ تھی۔ 


کہتے ہیں کہ زخمی عورت اور ہاتھی کبھی بھی اپنے اوپر زخم لگانے والے کو نہیں بھولتے!


اس میں کوئ حقیقت ہے بھی یا نہیں  لیکن فجر کی آنٹی اسے سچ ثابت کرنے جارہی تھی !


سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ گھر کا بھیدی تھی۔ اور گھر کا بھیدی جب ڈسنے پر آئے تو گھاؤ بڑا گہرا ہوتا ہے !


عورت کمزور ہے اور  عام طور پر کسی مرد کو بے وقوف بنا کر اس کے کاندھے پر رکھ بندوق چلاتی ہے۔ 


فجر کی آنٹی نے بھی ایک ایسے بندے کا انتخاب کیا تھا جو اس کا تو شناسا تھا لیکن فجر کے والدین اس سے ناواقف تھے۔ ڈرامے میں اس کا کردار بہت مختصر لیکن چونکا دینے والا تھا۔ 


فجر کی آنٹی نے یہ ڈرامہ لکھا اور ڈائرکٹ کرنا تھا۔ وہ اپنی متوقع کامیابی پر بہت مسرور تھی!


انسان بھول جاتا ہے کہ ایک کہانی کار ہماری زندگی کے ڈرامے کا بھی تخلیق کار ہے  جو ہر چیز پر قادر ہے!


ہال بہت خوبصورت تھا ۔ پہلے نکاح کا پروگرام تھا۔ مفتی صاحب تیار بیٹھے تھے ۔ گواہان موجود تھے اور سب چہرے جگمگارہے تھے۔ ابھی مفتی صاحب نکاح کے لئے خطبہ دینے ہی والے تھے کہ آنٹی کا منتخب کردہ اداکار اٹھ کھڑا ہوا اور سکرپٹ  کے مطابق ڈائیلاگ بولنے لگا:


"مفتی صاحب ! ایک مسئلہ ہے۔۔"


ساری بارات کی نظریں اس شخص کی طرف اٹھ گئیں ۔۔

ڈرامے کا آغاز ہو گیا تھا۔۔۔


"مفتی صاحب ! نکاح کے فارم پر اپنے ہی والد کا نام لکھا جاتا ہے نا ؟"


مفتی صاحب بولے :

"جی بالکل ! اللہ کا حکم ہے کہ آپ اپنے والدین کا نام کبھی نہیں بدل سکتے ۔۔"


اس شخص کی آواز گونجدار تھی۔ اور ہال میں مکمل سکوت طاری تھا۔۔


فجر سن بھی رہی تھی اور انجانے خدشات سے لرز بھی رہی تھی۔۔


"مفتی صاحب ! میں نے سنا ہے کہ ملک صاحب نے دلہن کے والد کی جگہ اپنا نام لکھوایا ہے۔۔ ملک وجاہت علی ۔۔ جبکہ حقیقت یہ کہ ملک وجاہت تو بے اولاد ہیں ۔ اور دلہن ان کی لے پالک بیٹی ہے۔۔۔"


اب کی بار تمام لوگوں کی نظریں ملک وجاہت علی پر جمی تھیں۔ ملک صاحب کی نظریں جھک گئیں ۔۔ 

برائڈ روم میں بیٹھی فجر اپنے بابا کے جواب کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ 


خاموشی لمبی ہوگئ۔۔


"ملک صاحب ! اللہ کا حکم ہے پورا کرنا ہے۔۔ کیا آپ ہی دلہن کے حقیقی والد ہیں ؟؟"

مفتی صاحب ملک صاحب سے پوچھ رہے تھے۔۔


"مفتی صاحب ۔۔۔ فجر ۔۔۔ میری ۔۔۔ بیٹی ۔۔۔ بیٹی۔۔۔ نہیں ہے۔۔"


سارے مہمان ہی ششدر رہ گئے ۔ 


صرف آنٹی کے چہرے پر مسکراہٹ سجی تھی۔۔۔ ایک بھیانک مسکراہٹ !


فجر نے اپنے بابا کا جواب واضح طور پر سنا تھا۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا۔۔ وہ چکرا کر گر گئ ۔۔


اس کی دنیا تاریک ہوچکی تھی۔۔۔۔


وہ حکمت والا خالق جسے چاہے بیٹے دے جسے چاہے بیٹیاں دے جسے چاہےدونوں دے اور جسے چاہے بانجھ بنادے ۔ 


" بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں!"


انسان کمزور ہے ۔ وہ آزمائش پر جب پورا نہیں اترتا تو پھر اپنے نفس کی مانتا ہے۔ ایک دوسرے کی اولاد لیکر اور دیکر چاہتا ہے کہ کمی پوری کردے ۔ کوئ انسان  کسی کو اولاد نہیں دے سکتا ۔ ایسا کہنا اور کرنا دونوں ہی دین کے خلاف کام ہیں۔ اسی طرح منہ بولے کا تصور بھی دین میں جائز نہیں۔ لیکن جب ہم ایسا خلاف شریعت قدم اٹھاتے ہیں تو ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔


حقیقی ماں باپ کے اوپر اور معلوم پڑنے پر لے پالک پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں انہیں سوچ کر ہی انسان دہل جاتا ہے۔معاشرے میں ان گنت کہانیاں بکھری پڑی ہیں ۔۔۔ لیکن ہم پھر بھی یہ گناہ کئے جاتے ہیں۔۔۔


فجر کی ذہنی حالت کا ادراک کون کر سکتا ہے ؟


فجر بہت دیر تک بے ہوش پڑی رہی۔ اس کی آنکھیں کھلیں تو اس کی ماما اس کے سرہانے کھڑی تھیں۔ فجر کو سب یاد آگیا اور اس نے دوبارہ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔


" میری ماما کہاں ہیں ؟ یہ تو میری ماما ہی نہیں ہیں۔۔ "


اس نے سوچا ۔ اور اس کی بند آنکھوں سے بارش برسنے لگی۔ اس کی ماما نے تڑپ کر فجر کو اپنی باہوں میں بھرلیا۔ لیکن انہیں محسوس ہوا کہ فجر کا جسم ٹھنڈا پڑگیا ہے ۔۔

انہیں محبت کی تپش محسوس نہ ہوئ۔۔۔


کیا فجر ان سے دور چلی جائے گی ؟ کیا ان کی گود پھر خالی ہو جائے گی؟


وہ ایک پل میں بیس برس پہلے اپنے ماضی میں کھو گئیں۔ جب انہوں نے اولاد کی طرف سے مایوس ہو کر اور لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر فجر کو گود لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ملک وجاہت کا چھوٹا بھائ جو مالی طور پر کمزور تھا ۔۔ اس پر  ملک وجاہت نے  دباؤ ڈال کر اس کی ہونے والی اولاد کو گود لینے کا فیصلہ کیا تھا۔۔ اس کے پہلے ہی چار بچے تھے۔۔ اللہ نے ان پر اپنی رحمت کی لیکن انہوں نے دکھی دل کے ساتھ اس رحمت کو اپنی بھابھی کی جھولی میں ڈال دیا۔۔


بیگم سلامت نے بظاہر اپنے شوہر کے فیصلے پر سر تسلیم خم کر دیا تھا۔ لیکن اندر سے وہ اس بری طرح تڑپی تھیں کہ جیسے ان کی بیٹی پیدا ہوتے ہی دوبارہ دنیا سے رخصت ہوگئ ہو۔۔ اور اپنے ہی ہاتھوں سے انہوں نے اسے لحد میں اتار دیا ہو۔۔


"بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں !"


یہ سب راز رکھا گیا تھا۔۔ لیکن جو اللہ چاہے ہو کر رہتا ہے۔ انسان بھول جاتا ہے اور اپنے راز ایک دوسرے پر آشکار کر ہی دیتا ہے۔۔ آنٹی۔۔ بیگم وجاہت کی گہری سہیلیوں میں سے تھی۔۔ اور پھر اسی آنٹی نے آج قیامت برپا کردی تھی۔۔


"فجر بیٹا ! میں تمہاری ماما ہوں۔۔ آنکھیں کھولو بیٹا۔۔۔ مجھے دیکھو بیٹا۔۔ مجھے مت تڑپاؤ ۔۔"


بیگم وجاہت بے بسی سے رو پڑیں۔۔


فجر نے اپنی ماما کو دیکھا اور تڑپ اٹھی ۔۔ اسے اپنا بچپن یاد آگیا۔۔ جب بھی اسے کوئ تکلیف ہوتی ۔ وہ اپنی ماما کی گود میں ہی تسکین پاتی۔ 


"آج مجھے کون تسکین دے گا؟"

فجر نے سوچا۔۔۔

"آج بھی مجھےاسی گود میں تسکین ملے گی ۔۔ "


فجر نے اپنی ماما کے ہاتھ پکڑے۔ بیگم وجاہت کو محبت کی گرمی محسوس ہوئ ۔ انہوں نے فجر کو دیکھا ۔ اور پھر وہ اپنی فجر سے لپٹ گئیں۔


دونوں اکٹھے رونے لگیں۔۔اور کوئ راستہ بھی تو نہیں تھا ۔ آنسو ان کے لئے سرمایہ حیات ثابت ہوئے۔۔۔۔۔


"مفتی صاحب ! آپ نکاح شروع کریں ۔۔ فجر میری بیٹی ہے۔۔۔"

ملک سلامت آگے بڑھے اور نکاح کی سنت کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔۔


دھچکا جتنا بھی بڑا ہو ۔ انسان سہ ہی جاتا ہے۔۔ کہ " اللہ کسی نفس کو بھی اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیا کرتا۔۔۔" یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور ہم انسان اس میں کئ بیج بوتے ہیں۔ جنہیں اگر دنیا میں کاٹنا ہو تو ہمارے اندر برداشت بھی پیدا کردی جاتی ہے۔۔۔


اللہ کی حکمت کو کون جا سکتا ہے ؟


ملک سلامت کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ کب ان کا راز فاش کر دیا جائے گا۔ اب انہیں اپنا کردار ادا کرنا تھا۔۔ ایک والد کا کردار۔ وہ فوری طور پر دلہے کے والد سے ملے اور انہیں اعتماد میں لیا۔ اور پھر وہ فجر کے پاس پہنچے اور فجر کو ۔۔اپنی بیٹی۔۔کو برسوں بعد اپنے سینے سے لگایا اور اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے فجر کو دلاسہ دیا۔ اس کی ہمت بڑھائ۔ جب انہوں نے فجر کے ماتھے پر بوسہ دیا تو مانو کہ فجر پھر سے زندہ ہوگئ۔ 


آج فجر کی رخصتی تھی۔ آج اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کا پتہ چلا تھا۔۔۔ کاش ! اسے سب پتہ ہوتا ! 


دوستو !

حقیقتیں چھپانے کے لئےنہیں ہوتیں۔ ہاں ! کچھ وقت کے لئے مؤخر کر دی جاتی ہیں! 


فجر کی رخصتی عجب تھی۔ اس کے دو بابا اور دونوں ماما ہی تڑپ تڑپ کر اسے وداع کر رہے تھے۔۔۔

فجر کو احساس ہو گیا تھا کہ اب اس کا رویہ ہی فیصلہ کن ثابت ہوگا۔۔۔ اس نے اپنی آنکھیں مزید جھکا دیں۔ 

وہ بہت کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔


فجر ٹکڑوں میں بٹ گئ ۔


اس کے اپنے دو بھائ اور دو بہنیں تھیں۔ وہ اپنی فجر کو کبھی بھی دور نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اب تو اس کے اپنے ماما بابا بھی آنکھوں کی برسوں کی پیاس بجھانے کو بیتاب تھے۔ راز اب راز نہیں رہا تھا اور یہ راز انہوں نے فاش بھی نہیں کیا تھا۔ یہ تو تقدیر کا لکھا تھا۔۔۔


فجر اب اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ وقت بتانا پسند کرتی تھی۔ ملک سلامت کا گھر ہی اب اس کا اصل میکہ تھا۔۔ لیکن جہاں اس نے زندگی کے اٹھارہ سال گزارے تھے۔۔ جہاں سے اس کی رخصتی ہوئ تھی۔ وہ گھر اب سونا پڑا تھا۔ کئ کئ ہفتوں کے بعد فجر جا پاتی ۔ وہ خوش تھی۔ بہت خوش تھی۔ بیگم و ملک وجاہت اس کی خوشی میں ہی خوش تھے۔ فجر جاچکی تھی اور ان کا آنگن اب دوبارہ خزاں آلود ہوگیا تھا۔ ملک وجاہت اب کچھ اور سوچ رہے تھے۔۔انہیں اپنے گھر کا خالی پن کاٹنے کو دوڑتا تھا لیکن وہ بے بس تھے۔۔ دونوں میاں بیوی اب اداس رہنے لگے تھے۔ 

 

جب بھی وہ اداس ہوتے اپنی فجر سے ملنے پہنچ جاتے۔۔ فجر بھی  اب زندگی توازن کے ساتھ بسر کرنا سیکھ چکی تھی۔ اس کے سسرالی رشتے دار اس کا پورا ساتھ دے رہے تھے۔ اس کا شوہر فخر ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ اس نے فجر کو اعتماد بھی دیا اور اسے زندگی کی اونچ نیچ سے بھی آگاہ کیا۔ اللہ نے فجر کو جب بیٹے سے نوازا تو وہ اس کے پیار میں سرشار ہوگئ۔۔۔ 


شادی تو آنٹی نے بھی اپنے اکلوتے بیٹے کی بڑی دھوم دھام سے کی تھی۔ اس کا بگڑا ہوا بیٹا اپنی بری عادات کی وجہ سے بدنام تھا۔۔اسی لئے آنٹی کو اپنی بہو ایک معاشی طور پر کمزور خاندان سے لانا پڑی۔ لیکن ابھی تک وہ امید بندھنے کے انتظار میں تھے۔۔ آنٹی نے علاج میں کوئ کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہ صرف ماں بیٹے کو معلوم تھا کہ نقص شوہر میں ہے۔ وہ کبھی باپ نہیں بن سکتا تھا۔۔ بظاہر آنٹی اپنی بہو کو ہی مورد الزام ٹہراتی تھی۔ وہ بار بار سب کے سامنے اپنی بہو کے بانجھ ہونے کا تذکرہ کرتی۔ ماں بیٹا کبھی بھی اس  حقیقت کو سامنے لانے کو تیار نہیں تھے۔ وہ بہو کو طلاق بھی نہیں دینا چاہتے تھے کہ نئ شادی بھی ان کے آنگن میں بہار نہیں لا سکتی تھی۔۔


آنٹی کے بیٹے دلاور نے ایک بار اپنی ماں سے کسی بچے کو گود لینے کا مشورہ کیا۔۔ جب انہیں کوئ اور راستہ نظر نہ آیا تو انہوں نے اپنے اس منصوبے پر عمل کرنے کی ٹھان لی۔۔ آنٹی کسی لڑکے کو گود لینا چاہتی تھی۔ دلاور نے اپنی ماں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ۔۔


اب بچہ کہاں سے آتا؟ 


وہ امیر کبیر لوگ تھے۔ انہوں نے ایک نرس سے بات کی ۔ جو اس کام کے لئے بدنام تھی۔ اس نے پچاس لاکھ کا مطالبہ کیا۔ پینتیس لاکھ میں سودا طے پا گیا۔۔دس لاکھ ایڈوانس میں ادا کر دئیے گئے۔۔ اور ماں بیٹے نے بڑی چالاکی کے ساتھ " ہونے والی ماں " کو اس کے میکے بھیج دیا۔ آنٹی کی بہو کے پاس اور کوئ راستہ نہیں تھا کہ وہ اپنے شوہر اور ساس کا ساتھ دیتی۔ کہ یہ سب کچھ اسی کی بہتری کے لئے کیا جارہا تھا۔


ماں بیٹا اپنے آنے والے وارث کا بڑی بیتابی سے انتظار کرنے لگے۔۔۔


دوستو !

انسان کی سوچ جہاں ختم ہوتی ہے سوہنے رب کی تقدیر کا چکر وہیں سے چل پڑتا ہے۔ قابیل سے لیکر آج تک  کے عیار اور چالاک مجرم تک کوئ بھی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔قدم اٹھالینا بہت آسان ہوتا ہے۔ منصوبہ بندی کرنا بھی کوئ مشکل نہیں ہوتا۔ بظاہر وسائل بھی میسر ہوتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ہوتا ہے جو خیر الماکرین چاہتا ہے !


بیگم و ملک وجاہت  کوتو  احساس ہو گیا تھا۔ انہوں نے فجر پر کبھی دباؤ نہیں ڈالا تھا۔ اب تو فجر اور فخر دونوں ہی ان کا خیال رکھتے تھے۔ ان کا احساس محرومی ختم ہوگیا تھا۔ ملک صاحب نے فجر کے بھائ بہنوں کے سر پر بھی دست شفقت رکھ دیا تھا ۔ انہوں نے ان کی شادیوں کے اخراجات بھی اٹھانے کی ذمہ داری لے لی تھی۔ اس فیصلے نے انہیں مزید عزت عطا کردی تھی۔ اللہ نے انہیں سکون و اطمینان سے نواز دیا۔ وہ اب فجر کے ساتھ اس کے بہن بھائیوں کے بھی سرپرست بن گئے تھے۔ 


آنٹی کے بھیانک قدم نے فجر کی زندگی  کو بہار کی قوس قزح میں رنگ دیا تھا۔۔۔


اب آنٹی نے ایک اور ڈرامہ ترتیب دیا تھا۔ 


کیا اس بار وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو پائے گی؟

کیا اب بھی وہ تقدیر سے لڑ پائے گی۔۔ جیت پائے گی؟


آنٹی اپنی منصوبہ بندی کر کے چین کی نیند سوگئ لیکن تقدیر کی آنکھ ہمیشہ سے کھلی تھی۔۔۔


وقت کی  کوکھ میں کیا چھپا تھا۔۔ کوئ نہیں جانتا تھا !


دوستو !

قسمت کے کھیل بہت عجیب ہیں ۔ 

انسان کو دنیا میں کتنا اختیار حاصل ہے؟

تقدیر ایک ایسی ان دیکھی زنجیر ہے جو ہر انسان کے پاؤں میں پڑی ہے۔ یہ زنجیر اسے اپنی حد میں رکھتی ہے۔ وہ کسی کا فائدہ یا نقصان اتناہی کرسکتا ہے جتنا اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔ 


قادر مطلق کی پناہ ہی ہے جو ہمیں ظالموں سے بچاسکتی ہے۔۔


نرس نے ایک ایسی ماں کا انتخاب کیا تھا جس کے کوکھ میں جڑواں بچے پرورش پا رہے تھے۔ دونوں لڑکے تھے۔ اس نے بڑی مہارت کے ساتھ اپنا کام کیا۔۔ ایک لڑکے کو غائب کردیا۔ اور غریب والدین اپنے بیٹے کو لیکر خوشی خوشی اپنے گھر روانہ ہوگئے۔۔۔


نرس نے اپنے آلہ کار پہلے ہی تیار کر رکھے تھے۔ اور وہ " میاں بیوی " دوسرے بچے کو لیکر بڑی آسانی کے ساتھ سرکاری ہسپتال کی تاریک راہداریوں سے گزرتے ہوئے اونگھتے ہوئے گیٹ کیپر کے قریب سے گزر کر رات کے اندھیرے میں نرس کے ٹھکانے کی طرف چل دیئے۔۔


ڈرامے کا کامیابی سے آغاز ہو چکا تھا۔۔


کیا اس کا اختتام بھی ان کے اختیار میں تھا؟


👥 لے پالک 👥

(دوسری اور آخری قسط)

ازقلم : نین شاہ


باقی معاملات بڑی آسانی سے سلجھ گئے اور بچہ ماں کی گود میں پہنچ گیا۔۔۔


آنٹی نے سکھ کا سانس لیا۔ دلاور اب سر اٹھاکر چل سکتا تھا۔ اس نے اپنی مردانگی ثابت کردی تھی۔ 


شان  کی پرورش انتہائی نازونعم سے کی گئ ۔ بہترین سکول میں اس کا داخلہ ہوا اور وہ ایک غریب خاندان کا چشم و چراغ امارت کی روشنی میں نہا گیا۔


آنٹی کی رعونت مزید دو چند ہوگئ۔۔۔ 


دلاور کا بیوی پر رعب و دبدبہ مزید بڑھ گیا۔۔


اور تقدیر کی زنجیر دراز کر دی گئ۔۔


دوسری طرف  شان کا جڑواں بھائ شہر سے دور ایک قصبے میں اپنے والدین کی آغوش میں پروان چڑھتا رہا۔ جمیل شان کا ہو بہو عکس تھا۔ دونوں بھائ اگر مل جاتے تو ان میں فرق کرنا ناممکن تھا۔۔


تقدیر کہیں قریب ہی بیٹھی اپنا جال بن رہی تھی!


دوستو !

کوئ کہانی جھوٹ نہیں ہوتی۔ جو ہم پڑھتے ہیں یا ڈرامے اور فلم کی شکل میں دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔۔ یہ سب دنیا میں کہیں نہ کہیں ہوگیا ہوتا ہے یا ہو رہا ہوتا ہے۔۔ یا پھر ہونے والا ہوتا ہے۔ یہ سب ہمارے معاشرے کا ہی عکس ہوتا ہے۔ ہم اسے تفریح تو سمجھتے ہیں لیکن اس سے سبق کم ہی حاصل کرتے ہیں۔۔


پیارے دوستو!

یہ کہانیاں ہمیں زندگی کا سبق دیتی ہیں ۔ انہیں نظر انداز مت کریں۔۔


فجر ہو یا شان ۔۔۔ دونوں اپنے اپنے گھونسلے سے گرے ہوئے بچے تھے۔۔ 


آنٹی نے بیگم و ملک وجاہت کے ساتھ کھیل کھیلا ۔۔ اسے کیا خبر تھی کہ وہ خود تقدیر کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ 

اب نرس کے ساتھ مل کر اس نے بظاہر بڑی کامیابی کے ساتھ اپنا پتا پھینکا تھا۔ لیکن انسان اپنی کامیابی کا یقین صرف اسی وقت کرسکتا ہے جب وہ اپنے ان فرشتوں کو نہیں دیکھ لیتا جو اسے دنیا سے لینے آتے ہیں اور اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔۔۔


کہتے ہیں برائ کا نتیجہ برا ہی ہوتا ہے اور آنٹی جیسے منافقوں کا پردہ بھی اللہ چاک کر ہی دیتا ہے۔۔


ایک دن ملک وجاہت کو وہ بندہ نظر آہی گیا جس نے آنٹی کے کہنے پر فجر کی شادی پر ان کا راز افشا کیا تھا۔ اتنے سالوں بعد وہ شرمسار تھا ۔۔ اس نے ملک وجاہت سے معذرت کی اور اب کی بار آنٹی کا راز فاش کردیا!


لیکن اس بار تو آنٹی نے کام بہت پکا کیا تھا۔ نرس خود شریک جرم تھی۔ وہ کیسے یہ راز فاش کرتی؟


شیکسپیئر نے کہیں کہا ہے کہ انسان ایکٹر ہے ۔۔ فنکار ہے اور وہ مختلف کردار ادا کرتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔۔


کیا ہم سب خالق کےلکھے ہوئے اس ڈرامے کے محض کردار ہیں جن کا ڈائریکٹر بھی وہ ہی ایک صمد ذات ہے؟

یا ہم اس کے سکرپٹ میں تبدیلی بھی کر سکتے ہیں ؟

کیا سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا گیا ہے ؟

یا پھر انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے ؟

جو نہیں جانتے وہ شور ہی مچاتے رہ جاتے ہیں۔۔۔

اور جو جان جاتے ہیں وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔۔


ہمارا خالق کائنات کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے ہی قلم کو تخلیق  کر کے ام الکتاب لکھوا چکا ہے۔ جس میں قیامت تک ہونے والے ہر عمل کو اللہ پاک کے علم کاملہ سے لوح پر محفوظ کردیا گیا ہے۔۔


ہم انسانوں کے پاس کتنا اختیار ہے اور کس انسان نے اس اختیار کو کتنا استعمال کرنا ہے۔۔۔

لکھ دیا گیا ہے۔۔۔


کس انسان نے خیر کے راستے پر اور کس نے شر کے راستے پر چلنا ہے۔۔۔

لکھ دیا گیا ہے۔۔۔


کس انسان نے توبہ کے دروازے پردستک دیکر اپنا حساب کتاب درست کرنا ہے۔۔

لکھ دیا گیا ہے۔۔


کون جنت میں جائے گا۔۔

لکھ دیا گیا ہے ۔۔


کون جہنم کا ایندھن بنے گا۔۔

لکھ دیا گیا ہے ۔۔


اور یہ سب انسان اختیاری طور پر اپنی مرضی سے کرے گا۔۔ اس پر کوئ جبر نہیں کہ وہ خیر کا راستہ چنتا ہے یا شر کا۔۔

وہ خود اپنے لئے ابدی سکون خریدتا ہے یا پھر آتش جہنم !


جاننے والے کوئ ایسا کام نہیں کرتے جو انہیں بے سکون کردے۔۔۔

جاننے والے ۔۔ اللہ والے ۔۔ اپنے ارادے کو بھی اللہ کی رضا کے ساتھ جوڑتے ہیں اور امر ہوجاتے ہیں!


نفس کے پجاری بدترین شرک کرتے کرتے جہنم کے تاریک  گڑھے میں جا گرتے ہیں!


آنٹی نفس کی پجارن تھی۔۔ اور اپنا جہنم اپنے ہاتھوں سے روشن تر کرتی جارہی تھی۔۔۔


کچھ ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے جب انسان صم بکم عمی کا نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔۔


جو اس دنیا میں بچ جاتے ہیں ان کے لئے فیصلے کا دن رکھا گیا ہے جس کا دورانیہ پچاس ہزار سال ہے۔۔۔


جو لوگ مکافات عمل پر یقین نہیں رکھتے یا شکوک کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ جان لیں کہ اللہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔۔ اور یہ دنیا کوئ کھیل تماشا کی جا نہیں ہے بلکہ عبرت کا میدان ہے!


وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے گھومتا رہا ۔۔ آنٹی کا پوتا شان  اب جوان ہوگیا تھا۔ اسے بالکل بھی احساس نہیں تھا۔۔ وہ جانتا تک نہیں تھا کہ حقیقت کیا ہے ؟ 


لیکن تقدیر کے کھیل نرالے ہیں !


کن فیکون کا کرشمہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔۔۔

یہ رب جلیل کا فرمان ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا۔۔۔


وہ ہم انسانوں کو ہماری اوقات دکھاتا ہی رہتا ہے۔۔


اور اب آنٹی کی باری بھی آچکی تھی۔کن فیکون کی صدا لگ چکی تھی۔۔۔


"اوۓ ! جیلے  تو شہر میں کیا کر رہا ہے ؟؟ واہ ! میرا یار تو  بڑا نکھرا ہوا ہے۔ اوۓ یہ گڈی کس کی ہے ؟ تجھے تو موٹر سائیکل چلانی نہیں آتی ۔۔ تو یہاں گڈی چلا رہا ہے۔۔۔

اوئے ! ڈرائیور لگا ہوا ہے تو شہر میں۔۔ اوئے ! یہ کیا بٹر بٹر دیکھ رہا ہے۔۔ شہر آکے تو بھی مجھے شیرے کو اپنے یار کو بھول گیا ہے ۔۔ آ اوئے جپھی تو پا ۔۔"


شیرا جمیل کا دوست زبردستی شان کے گلے لگ گیا۔۔ شان لاری اڈے کے پاس کھڑا اپنی گاڑی مکینک سے چیک کروارہا تھا۔ وہ ابھی تک ہکا بکا کھڑا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرے۔ 


شیرا شہر کام کے سلسلے میں آتا رہتا تھا۔ آج جب وہ بس سے اترا تو اس کی نظر گاڑی کے پاس کھڑے شان پر پڑ گئ۔ اسے لگا کہ جمیل کھڑا ہے۔۔


"بھائ ! میں شان ہوں۔ آپ کو غلط فہمی ہوئ ہے۔ میں آپ کو نہیں جانتا۔۔"

شان نے شیرے سے کہا ۔۔ لیکن اس کے ذہن میں کچھ اٹک گیا تھا۔


"اوہ ! معاف کرنا ویرا ۔۔ لگتا ہے مجھ سے ہی غلطی ہوئ ہے۔۔پر۔۔پر۔۔ جیلا ۔۔ شان ۔۔ شان ۔۔ جیلا۔۔"

شیرا حیرانی کے عالم میں وہاں سے چل دیا۔


ابھی وہ چند قدم ہی دور گیا تھا کہ شان نے اسے آواز دی۔ 


"شیرے بھائ ! بات سننا۔۔"

چلو ! مجھے بھی اپنا دوست ہی سمجھو۔۔۔"


شان دل کا بہت اچھا تھا۔ وہ کبھی بھی آنٹی کی نسل سے دلاور کی نسل سے نہیں لگتا تھا۔۔ اور تھا بھی نہیں ۔۔


" موبائل ہے تیرے پاس ؟ "

شیرے نے اپنی جیب سے فورا بٹنوں والا موبائل نکالا ۔۔

" ویر ! یہ لے پکڑ ۔ بیلنس مک گیا ہے ۔۔ ڈلوا دیتا ہوں۔ فون کرنا ہے نا تو نے ؟"

شان شیرے کی سادگی پر مسکرا اٹھا۔۔۔

" نہیں !تیرے پاس تیرے یار کی تصویر تو ہوگی نا۔۔ جیلے کی ؟"

شیرے نے فورا ہی موبائل میں اپنے ساتھ جیلے کی تصویر شان کو دکھادی۔۔۔

شان نے جب جمیل کو دیکھا تو اسے لگا جیسے وہ آئنہ دیکھ رہا ہو۔۔۔


"اوہ خدایا ! اتنی مماثلت ۔۔۔"

شان سوچ رہا تھا۔ اچانک وہ بولا۔


"شیرے ! مجھے اپنے دوست سے ملاؤ گے؟"

"ویر ! کیوں نہیں ۔۔۔ شہر بلاؤں اسے ۔۔ اپنے جیلے کو ؟ "

"نہیں ! میں خود چلوں گا تمہارے ساتھ ۔۔ اسے ملنے۔۔"

" ابھی چل ویر۔۔ بس ایک گھنٹہ لگے گا۔۔ جیلا بھی تجھے دیکھ کر بہت حیران ہوگا۔۔۔"


شان نے اپنی ماما کو کال کی اور گاڑی ٹھیک ہوتے ہی شیرے کے ساتھ روانہ ہوگیا۔۔


شان راستے بھر سوچتا رہا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ دو انسانوں کی شکل اتنی زیادہ ملتی جلتی ہو۔ اس نے identical twins کے بارے میں پڑھ رکھا تھا ۔ جو ہو بہو ایک سی شکل والے ہوتے ہیں ۔ ان کی عادات بھی ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔۔۔


لیکن وہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں ۔۔۔ سگے بھائ۔۔


شان بڑی بے چینی سے جمیل سے ملنے کا انتظار  کر رہا تھا۔ شان دنیا میں اکیلا ہی تھا۔ اس کا کوئ بھائ بہن نہیں تھے۔ ہوتے بھی کیسے ؟


دلاور اس کا باپ اولاد پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔۔ اور وہ خود برسوں پہلے نرس سے خریدا گیا تھا۔۔


کاش ! شان پلٹ جاتا۔۔ لیکن شائد وقت کا پہیہ الٹا چلنا شروع ہوچکا تھا!


جب وہ جیلے کے گھر پہنچے تو جیلے کی ماں نے سب سے پہلے شان کو دیکھا ۔ اور دھوکہ کھا گئ۔۔ 

"جیلے پتر ! تو کیا بن کے آگیا ہے۔۔ ماں صدقے ماں واری۔۔ لگ تو بڑا سوہنا رہا ہے۔۔ پر ۔۔۔"

سادہ لوح خاتون خود سوچ میں پڑگئ۔ شان بس حیرانی سے اسے دیکھے جارہا تھا۔۔ 


شیرے نے جب سارا ماجرا سنایا تو ماں کو بھی یقین نہ آیا۔  اس نے اپنے مہمان ۔۔ پتر ۔۔ کی بڑی خدمت کی۔ 


شان انکی سادگی سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے ابھی تک شہر کے مصنوعی رنگ ہی دیکھے تھے۔ اس نے کبھی بھی رشتوں کی مٹھاس محسوس نہیں کی تھی۔ اسے کیا خبر تھی کہ وہ اپنی اصل جگہ پہنچ گیا ہے۔ اسے ہر چیز ہر شخص میں اپنائیت محسوس ہو رہی تھی۔ اسے زندگی میں پہلی بار ماں کی خوشبو محسوس ہوئ۔ وہ ایسی محبت شفقت اور اپنائیت سے ناآشنا ہی رہا تھا۔۔ وہ تو شہر میں بس ایک شو پیس تھا ۔ ایک دکھلاوے  کی چیز  اور بس۔۔۔ اس کی اپنی ماما بھی اس سے کھنچی ہوئ ہی رہتی تھی۔ شان پڑھا لکھا تھا اور رویوں کی پہچان کر سکتا تھا۔۔ وہ اکثر الجھاؤ کا شکار ہو جایا کرتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ کچھ ہے جو چھپا ہے۔ ۔ یا چھپایا گیا ہے۔۔ 


شان کی ماں بتا رہی تھی۔۔

" پتر ! جیلا ابھی آتا ہی ہوگا۔۔ وہ بھی بڑا حیران ہوگا۔۔ "

"جیلے کی عمر کتنی ہے ماں جی ؟"

"پتر ! پورے انیس برس کا ہوا ہے۔ اٹھویں مہینے پیدا ہوا تھا۔۔۔ دو تاریخ کو۔۔۔"


"دو اگست ۔۔ دو اگست۔۔ دو اگست ۔۔"

شان کے سر پر ہتھوڑے برسنے لگے۔۔۔ اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پوچھا۔۔۔

"ماں جی ! جیلا کہاں پیدا ہوا تھا؟ یہیں یا کہیں اور۔۔"

پتر ! دائ نے کہا تھا کہ خطرہ ہو سکتا ہے۔۔ اسے لگتا تھا۔۔ اسے لگتا تھا۔۔۔۔ اسے لگتا تھا۔۔۔۔ ہم شہر چلے گئے تھے۔۔"

"اسے کیا لگتا تھا ماں جی؟؟"

"اسے لگتا تھا کہ میرے پیٹ میں دو ۔۔۔ بچے ہیں۔۔۔"


اور ماں اپنے ہی دوسرے بچے کو حیرانی سے دیکھنے لگی۔۔۔


شان نے دوبارہ اپنا سر پکڑ لیا۔۔


"لیکن پتر ! نرس نے تو مجھے ایک ہی بچہ پکڑایا تھا ۔ وڈا آپریشن کیا تھا نا انہوں نے۔ "


شان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔۔۔


 " پتر ! کیوں روتا ہے۔۔ لگتا ہے ماں یاد آگئ ہے تجھے۔ تیری ماں نہیں ہے پتر۔۔۔ ادھر آ پتر ۔۔ میں بھی تو تیری ماں بجا ہی ہوں نا۔۔ "

ماں نے شان کے سر پر ہاتھ رکھا اور پھر جھجھکتے ہوئے اس کے آنسو صاف کرنے لگی۔ 

"ماں واری ! نہ رو پتر۔۔ میں بھی تیری ماں ہی ہوں۔۔۔"


اتنے میں جیلا بھی آگیا ۔۔ جوں ہی اس کی نظر شان پر پڑی۔ اس کے پاؤں دہلیز پر ہی جم گئے۔۔


تمام افراد ششدر رہ گئے۔ وہ سب ایک دوسرے کو ہی دیکھے جارہے تھے۔ کیا ہونے جارہا تھا؟ کوئ نہیں جانتا تھا۔۔۔


شان کا سر چکرانے لگا۔ اس کو اپنی شناخت پر شک ہونے لگا۔ اس کے لئے اس کی ماما اور پاپا صرف بیگم و چودھری دلاور بن گئے۔ اسے لگا کہ وہ لاوارث ہے۔ اسے لگا کہ جمیل اور اس کی ماں اس کی اصل شناخت ہیں۔۔ لیکن ابھی معمہ حل نہیں ہوا تھا۔ 


شان نے اپنی زندگی کا معمہ ہمیشہ کے لئے حل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ 


وہ جمیل کے والدین کو لیکر شہر اس ہسپتال میں پہنچ گیا جہاں جمیل پیدا ہوا تھا۔ ریکارڈ نکلوانے میں اسے مشکل نہ ہوئ کہ روپیہ ہر تالے کی چابی ہے۔۔


اور پھر وہ اس نرس کے روبرو کھڑا تھا جس نے برسوں پہلے شان کا سودا کیا تھا۔۔ 


بوڑھی نرس اس وقت جیل میں پڑی تھی ۔ وہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئ تھی۔ اسے یاد آگیا۔۔ سب یاد آگیا۔۔۔ وہ مزید سزا نہیں بھگت سکتی تھی۔ اس نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے ان سب کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔۔


شان نے اسے اس کے حال پر چھوڑا اور اپنے والدین اور بھائ کو لیکر اپنے گھر پہنچ گیا۔۔


دوستو !

آنٹی بوڑھی ہو چکی تھی۔ وہ برسوں پہلے کا بویا ہوا بیج جو اب تناور درخت بن گیا تھا۔۔ اسے کاٹنے کے لئے ہر گز تیار نہیں تھی۔۔


لیکن تقدیر میں لکھا ہو کر ہی رہتا ہے۔


شان نے تینوں مجرموں کو اپنے سامنے لا کھڑا کیا۔۔اس نے صرف نرس کے ساتھ ریکارڈ کی ہوئ  گفتگو انہیں سنائ اور خاموشی کے ساتھ ان کے زرد ہوتے ہوئے چہروں کو دیکھنے لگا۔۔ وہ سب سر جھکائے شان کے کٹھرے میں کھڑے تھے۔ 


شان نے آج ان کے مستقبل کا  فیصلہ  کرنا تھا۔۔


ابھی تک کوئ  ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔۔۔ بولنے کے لئے کچھ باقی بچا ہی نہیں  تھا!


شان نے اپنے والدین کو اپنے بھائ کو اشارہ کیا۔۔۔ اور وہ انہیں لیکر اس محل نما گھر سے باہر جانے لگا۔۔۔


آنٹی دلاور اور اس کی بیگم میں جیسے جان پڑگئ۔۔ اور وہ شان کو آوازیں دینے لگے۔


شان نے کوئ جواب نہ دیا۔ اس کی ماما دوڑتی ہوئ اس کے پاس پہنچی لیکن شان کے چہرے پر سجی اجنبیت دیکھ کر پیچھے ہٹ گئ۔ 


اور شان اپنے خاندان کو لیکر اپنے گھر روانہ ہوگیا۔


اختتام ۔۔۔


حرف آخر !


دوستو !


میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے۔ لیکن کچھ موضوعات ایسےبھی ہیں جن کے بارے میں ہمیں جاننا چاہئے  کہ ہمارا دین اس بارے میں کیا احکامات دیتا ہے؟

اسی طرح ہم ایسے نتائج سے بچ  سکتےہیں۔۔


واضح رہے کہ کہانی کی بنیاد ایک سچے واقعے پر رکھی گئ ہے۔۔


آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔


نین شاہ

6 ستمبر 2021

Comments

SAFT-IN